mustaqbil ka haal!!
- sarwat-razzaqi
- Apr 10
- 5 min read

وہ پیاری تھی. پر اعتماد بھی دکھتی تھی اور لائق بھی. خاندانی بھی تھی اور با کردار بھی. پھر کوئی وجھہ نہ تھی جو یونیورسٹی میں اسے نظروں می آنے سے روکتی. کون کہ سکتا تھا کے اس سب کے ہوتے ہوے بھی وہ کیوں محتاط رہتی تھی. کونسا ڈرتھا، کیسا عدم تحفظ تھا اسے اپنی ذات کے بارے میں جو اس کو اندر ہی اندر سہماے ہوے رکھتا تھا. اپنی ذات کے گرد خول لپیٹے وہ زندگی کو ویسے ہی گزار رہی تھی جیسے پھونک پھونک کے گزارنے کی ضرورت ہے.
کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ آپ کا پیدا ہونا ہی ایک آزمائش ہوتا ہے. وہ ایک بات جو اسکے پیدا ہونے سے بھی پہلے اس کے لئے لکھ دی گئی تھی، اس کے چنگل سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں تھا.
ہاں ہوں گے وہ لوگ جو کالج، یونیورسٹی میں دل کھول کے ہنستے بستے ہوں گے، جنہے فرق ہی نہیں پڑتا کہ کوئی ان کے بارے می کیا سوچ رہا ہے، بس اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں خوش فہم ہیں، جانے کیسے انہیں لگتا ہے کہ یہ لڑکیاں یونہی مزے سے، ہنستے بولتے، ٹھٹھے اڑاتے، زندگی کے امتحان سے گزر جائیں گی. اپنی عمر کی لڑکیوں کو بے فکری سے اپنی پسند کے افسانوی کرداروں کے بارے میں بات کرتے دیکھنا شاید کسی کو اتنا مسحور نہ کرتا جتنا اسے.
اپنی دوستوں تک سے اپنی ذات کو پردوں میں بند رکھتے رکھتے اسے لائبریری کی خاموشیاں سکوں دیتی تھیں یا ہیڈ فونز کا سب آوازوں کو دبا دینے والا ہنگامہ راس آتا تھا. یوں نہیں تھا کہ وہ دبو کسم کی لڑکی ہو. اس کے بابا نے اسے خوب اعتماد دیا تھا، بہن بھائیوں کی لاڈلی تھی. جانتے تھے سب کہ اس کا کوئی قصور نہیں جس کی پاداش میں اسے زندگی نے وہ امتحان دیا کہ زندگی سا بوجھ کوئی نہیں رہا تھا.
اپنی بہنوں، کزنزاوردوستوں کو ماؤں کے ساتھ لاڈ کرتے دیکھنا اسکے وہ سب گھاؤ ادھیڑ دیتا تھا جن سے وہ ٢١ سال سے لڑ رہی تھی. ماں کا کوئی قصور نہیں تھا، سب ویسے ہی تھا جیسے بتایا گیا تھا. پھر سب ویسے ہی ہونا تھا جیسے آگے کا بتا دیا گیا تھا.
انہے انکے خاندانی بزرگ نے انکی شادی ہونے سے بھی پہلے بتا دیا تھا کہ ان کے ہاں کتنی اولاد ہوگی اور ان کے کیا کیا نصیب ہوں گے. اور وہی ہوا. شادی بھی ہوئ اور اولاد بھی اسی ترتیب سے. بزرگ کا انتقال ہو گیا ورنہ شاید انہی کے پاس جا کر وہ بھی پوچھ لیتی کہ کیا اسکی زندگی کبھی آسان بھی ہوگی؟ کیا انکی پیشن گوئی کہ "یہ لڑکی اپنے ماں باپ کو دکھ دے گی" کی اس کے علاوہ بھی کوئی تشریح کی جا سکتی ہے؟ کچھ بھی ایسا جس سے اسے سانس لینا تھوڑا آسان ہو جائے؟
ماں نے بھی ہر حرکت پر شیر سی نظر رکھی اورغیر ارادی طور پر خود سے قریب نہ ہونے دیا. اس لڑکی نے تو دکھ دینا ہے، نجانے کیا گل کھلانے ہیں اسے. پتا نہیں اس کی وجھہ سے کیا کیا سہنا پڑے گا، زمانے میں ایک ساخ ہے خاندان کی، جانے کیا دیکھنا پڑے گا اس کی بدولت!
اس نے اپنا مقصد حیات اس پیشن گوئی کو غلط ثابت کرنا بنا لیا. ہر اس راہ سے دوری جس میں کہیں بهت آگے بھی پھسلنے کا خدشہ ہو. اسکی طبیعت میں ہر چیز اور ہر انسان کو شک کی نظر سے دیکھنا راسخ ہوتا گیا اور ساتھ ہی کسی پر اعتماد کرنا بھی بیوقوفی لگنے لگا. کون جانے کس کا ساتھ ماں باپ کی دل آزاری کا بائیس بنے. اس نے خود کو علم کی جستجو میں لگا لیا، بڑھ چڑھ کر مباحثوں میں حصّہ لینے لگی، محفلوں میں ہر کسی کے قصے کے ساتھ وہ خود سے جڑا کوئی قصّہ سناتی. کسی دوست کو ضرورت ہوئ تو بھی پیش پیش رہی. کبھی کچھ طبیعت اور مرضی کے خلاف ہوا تو بھی افسردگی ظاہر کرنے کی بجاے اس نے توجیح پیش کی شاید زمانے کو اور یقیناً خود کو.
اسکی بقا کا دار و مدار اسی پر تھا. یونیورسٹی ختم ہو گئی اور عملی زندگی میں بھی انہی اصولوں پے کاربند رہی.
پھر وہ دن بھی آ گیا جس کے خوف کا آسیب اس کی پوری زندگی کا عنوان بن چکا تھا.
اس نے چند ہی منٹوں میں نہ صرف اپنے ماں، باپ، بلکہ بہنوں، بھائیوں، دوستوں، عزیزوں، رشتے داروں کو کچھ کہنے کے لائق نہ چھوڑا.
پر یہ تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا.
کیا واقعی یہ سب ایسے ہونا تھا؟!
عقل ساتھ نہیں دیتی تھی اور زبان کو تالے لگے تھے.
کون جا کر اسکی ماں کا سامنا کرتا؟
اسکی بہنیں اور واقف حال دوستیں تو اسے اب تک یہی تسّلی دیتی رہیں کہ یہ محض اتفاق ہے کہ اب تک کی باتیں سچ ہوئ ہیں. ماں کو بھی حسب توفیق کھلے اور دبے لفظوں میں احساس دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ غائب کے معاملات میں کسی مخلوق کا زور نہیں.
پر یہ کیا ہو گیا تھا؟!
چند دن پہلے تو وہ ایک دوست کی مالی مدد کر رہی تھی، وہ تو مزید تعلیم ک لئے باہر جانے کا سوچ رہی تھی، اسے تو یہاں رہ کر بھی بہترین مواقع مل رہے تھے ...وہ کیسے یہ کر سکتی ہے؟
چند لمحوں میں ہی سب خدشات سچ ہو گیۓ!
کسی نے اس سے ایسی امید نہیں کی تھی!
وہ اپنی سب محرومیوں اور درد کو سمیٹ کر اپنے خالق کے پاس چلی گئی.
اس سے بڑا سانحہ جانتے ہیں کیا ہے؟
وہ زندگی بھراپنی ماں کی شک بھری نظروں سے بچتی رہی. ماں کے گلے لگ کر اس سے ناز اٹھوانے کی خواہش پوری نہ ہو سکی.
وہ جو اپنی قابلیت اور محنت سے دنیا میں حقیقی تبدیلی لانے والوں میں ہو سکتی تھی، کبھی اپنی صلاحییتوں کو پوری طرح بروے کار نہیں لا سکی.
وجھہ؟
ایک انسان کے نا مکمل علم نے وہ کرنے کی کوشش کی جو اس کے کرنے کا کام نہیں.
الله نے تو بتا دیا تھا:
وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ [ الأنعام: 59]
پھر یہ بھی کہ:
قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
[ النمل: 65]
کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں خدا کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے۔ اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب (زندہ کرکے) اٹھائے جائیں گے
پھر کس تجسّس سے انسان مجبور ہو کر ٹوٹے پھوٹے علم والی مخلوق کے پاس جاتا ہے جب صاف حکم آ چکا ہے کہ:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ
مومنو! ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتیں) تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں [ المائدة: 101]
خدارا! مستقبل کا حال الله پے چھوڑ دیں. ہمارے پاس جو سب سے مضبوط ہتھیار ہے وہ ہے دعا. اپنی سی پوری کوشش اور دعا کے بعد نتیجہ الله کے حوالے کر دیں. الله آپ سے نیتوں پہ سوال کرے گا اور آپ کے اعمال کی پرکھ ہوگی، آپ کے حقوق الله کی، سلوک کی،اور حقوق العباد کی بھی.
پھر الله سے بہترین کا گمان رکھیں اس یقین سے کہ وہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور آپ کے لئے جو بھی لکھا ہے اس نے، وہی بہترین ہے اور وہ آپ کو اپنے وقت پر مل جائے گا.
آپ کے ذمے مقدور بھر کوشش ہے اپنے "شاکلہ" کے مطابق، وہ تلاش کریں اور الله سے مدد مانگتے رھیں. پھر کسی نجومی، جادوگر، عالم کے پاس جانا اپنی قدر کھو دے گا.
اس اچھی لڑکی کے لئے سوره ال فاتحہ پڑھ کر ایصال ثواب کی گزارش ہے.
Comments